بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں
بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں
اپنی قبر آپ ہی تعمیر کیے جاتا ہوں
چین مطلق نہیں پڑتا شب ہجراں میں مجھے
صبح تک نالۂ شب گیر کیے جاتا ہوں
عفو پر عفو کی ریزش ہے ادھر سے ہر دم
اور میں تقصیر پہ تقصیر کیے جاتا ہوں
اس کے کوچے میں جو دیکھے گا کرے گا مجھے یاد
اپنی صورت کی میں تصویر کیے جاتا ہوں
اٹھ کے تا کوچۂ لیلیٰ سے نہ جاوے یہ کہیں
پانو میں قیس کے زنجیر کیے جاتا ہوں
کوئی لے جائے اسے یا کہ نہ لے جائے پہ میں
نامۂ شوق کی تحریر کیے جاتا ہوں
اس کا کیا جرم مرے ہوش گئے ہیں کیسے
جو علم غیر پہ شمشیر کیے جاتا ہوں
پیش جاتی نہیں یوں بھی مری اس سے ہر چند
شر و مکر و فن و تزویر کیے جاتا ہوں
نقش حب چال سے نکل ہے مری اس خاطر
میں پری زادوں کی تسخیر کیے جاتا ہوں
مصحفیؔ یار تو سنتا نہیں اور وحشی سا
حال کی اپنے میں تقریر کیے جاتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |