بغل میں ہم نے رات اک غیرت مہتاب دیکھا ہے
بغل میں ہم نے رات اک غیرت مہتاب دیکھا ہے
تمہیں اس خواب کی تعبیر ہو کیا خواب دیکھا ہے
تڑپ بجلی کی بھی دیکھی ہے وہ دل تھام لیتے ہیں
تری بے تابیوں کو بھی دل بے تاب دیکھا ہے
وہ الفت دوست ہوں ناصح دعا ہی دل سے نکلی ہے
اگر دشمن کے گھر بھی مجمع احباب دیکھا ہے
خدا کے سامنے اے محتسب سچ بولنا ہوگا
مرے ساغر میں مے دیکھی ہے یا خوں ناب دیکھا ہے
مبارکؔ اضطراب شوق کا عالم نہیں چھپتا
کہ جب دیکھا ہے ہم نے آپ کو بے تاب دیکھا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |