بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
تم نے ساز فغاں کو کیوں چھیڑا
مجھ کو اس ترک سے یہ شکوہ ہے
دل پہ رکھ کر سناں کو کیوں چھیڑا
نہ بلا لائے مجھ سا دیوانہ
سنگسار جہاں کو کیوں چھیڑا
اے ہما! اور کھانے تھے مردے
میرے ہی استخواں کو کیوں چھیڑا
بہلہ نادم ہو جی میں کہتا ہے
میں نے اس مومیاں کو کیوں چھیڑا
پھر گیا مجھ سے جو مزاج اس کا
گردش آسماں کو کیوں چھیڑا
دور سے اس نے میری صورت دیکھ
توسن خوش عناں کو کیوں چھیڑا
داستاں اپنی مجھ کو کہنی تھی
قصۂ این و آں کو کیوں چھیڑا
قصہ خواں اور لاکھ قصے تھے
تو نے ذکر بتاں کو کیوں چھیڑا
جس سے کل مجھ کو آ گئی تھی غشی
پھر اسی داستاں کو کیوں چھیڑا
مصحفیؔ گھر کے گھر جلا دے گا
ایسے آتش زباں کو کیوں چھیڑا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |