بندہ اب ناصبور ہوتا ہے
بندہ اب ناصبور ہوتا ہے
عفو ہووے قصور ہوتا ہے
وہ زمیں پر قدم نہیں رکھتے
حسن کا کیا غرور ہوتا ہے
دولت حسن کے لٹانے میں
خرچ کیا اے حضور ہوتا ہے
سرمہ آنکھوں میں وہ لگاتے ہیں
دیکھیے کیا فتور ہوتا ہے
ہم ہیں مجبور آپ ہیں مختار
کہئے کس سے قصور ہوتا ہے
سایہ اس آفتاب طلعت کا
دیدۂ مہ کا نور ہوتا ہے
خاک حاصل ہے اس سے مردوں کو
زر جو صرف قبور ہوتا ہے
میکشوں میں مدام اے زاہد
نعرۂ یا غفور ہوتا ہے
وصل ہو ٹالیے نہ بوسے پر
اس سے کیا اے حضور ہوتا ہے
فکر رکھتے نہیں ہیں دیوانے
باعث غم شعور ہوتا ہے
پرتو رخ سے ان کا جیب قبا
دامن کوہ طور ہوتا ہے
خوب عاشق کا پاس کرتے ہو
ہر گھڑی دور دور ہوتا ہے
ایک ہی نور کا زمانے میں
سو طرح سے ظہور ہوتا ہے
مجھ کو ناحق حلال کرتے ہے
خون یہ بے قصور ہوتا ہے
کشتیٔ مے چلی تو اے ساقی
بحر غم سے عبور ہوتا ہے
اے صباؔ جب بہار آتی ہے
ہم کو سودا ضرور ہوتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |