بند بھی آنکھوں کو ذری کیجیے
بند بھی آنکھوں کو ذری کیجیے
چند پریشاں نظری کیجیے
اک نظر ایدھر بھی ذری کیجیے
گر نہیں اچھی، نظری کیجیے
دل کے عوض دیجیے بوسہ ہی ایک
خوب نہیں مفت بری کیجیے
آئینے میں دیکھیے مکھڑا میاں
آئینے کو رشک پری کیجیے
گر نہیں قاصد تو بدل کر کے بھیس
آپ ہی پیغمبری کیجیے
قدر ہنر کی جو ہوئی دیکھ لی
اب ہنر بے ہنری کیجیے
کون ہے ان باتوں کا مانع میاں
خوب سی بیداد گری کیجیے
دل کی کچھ اس کو سے نہ آئی خبر
ماتم یار سفری کیجیے
مصحفیؔ ہے وقت وداع جہاں
مثل چراغ سحری کیجیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |