بن سنور کر ہو جو وہ جلوہ نما کوٹھے پر
بن سنور کر ہو جو وہ جلوہ نما کوٹھے پر
چرخ چارم کا نظر آئے سما کوٹھے پر
طشت از بام نہ کرنا کہیں راز الفت
نہ اشارے کرو اے شوخ ادا کوٹھے پر
ڈورے ڈالیں نہ کہیں یار اڑانے والے
بے تکلف نہ یوں کنکوے اڑا کوٹھے پر
سب کو مہتاب کا دھوکا ہوا مہتابی پر
کل سر شام وہ مہ رو جو چڑھا کوٹھے پر
وہ کہا کرتے ہیں کوٹھوں چڑھی ہونٹوں نکلی
دل میں ہی رکھنا جو کل رات ہوا کوٹھے پر
چاندنی ہو بچھی اور چاند نے ہو کھیت کیا
اور پہلو میں ہو وہ مہ لقا کوٹھے پر
آفتاب لب بام اب تو ہوئے ہیں کیفیؔ
آنکھیں پھر اس سے لڑائیں بھلا کیا کوٹھے پر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |