بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج

بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
by غلام علی ہمدانی مصحفی

بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
تو نہ ہوں سبز کبھی اپنی شکایات کے بیج

ہم نے اس مزرع ہستی میں کیے ہیں جو عمل
ایک دن کھینچیں گے سر ان کی مکافات کے بیج

آہ دہقان فلک کی کہوں کیا بد تخمی
خاک آدم میں یہ نت بووے ہے آفات کے بیج

باغباں جب تئیں ہاتھ آوے ترے بذر البنج
میری تربت پہ نہ بو اور نباتات کے بیج

ولد القحبہ سے پوچھو نہ، تری ذات ہے کیا
بیج میں اس کے ہیں مخلوط کئی ذات کے بیج

داغ سینے کے مرے طرفہ دکھاتے ہیں بہار
ہیں یہ بوئے ہوئے کس نخل طلسمات کے بیج

بستر شیخ پہ جو کونچ کی پھلیاں نکلیں
تھے چھپائے ہوئے شاید اسی بد ذات کے بیج

ان کو کیا ہووے ہے جز رزق پریشاں حاصل
جا بجا بوتے پھریں ہیں جو ملاقات کے بیج

مصحفیؔ اس سے بھی بہتر غزل اک اور سنا
وادیٔ فکر میں بو کر تو خیالات کے بیج

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse