بوسہ زلف دوتا کا دو
بوسہ زلف دوتا کا دو
روحوں بلائیں صدقہ دو
رد و بدل کیا بوسہ دو
لیتا ایک نہ دیتا دو
زلف سیہ کے مجرم ہیں
کالے پانی بھجوا دو
یہ جائیں گے مثل حباب
چھوٹنے دل کا چھالا دو
مشرک کیا ہو وحدت میں
ایک کو دیکھے جھٹکا دو
گھر میں بلا کے قتل کرو
دروازے میں تیغا دو
ہم پہ کھلا ہے راز کمر
اور کسی کو دھوکا دو
چاہئے ہم کو غسل و کفن
کپڑے بدلیں نہلا دو
گل کھا کھا کر دی ہے جان
قبر میں میری چھلا دو
تربت واعظ تک چلو شادؔ
جھوٹے کو حد تک پہنچا دو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |