بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک
بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک
بنے رہو گے تم اس ملک میں میاں کب تک
حرم سرا کی حفاظت کو تیغ ہی نہ رہی
تو کام دیں گی یہ چلمن کی تیلیاں کب تک
میاں سے بی بی ہیں پردہ ہے ان کو فرض مگر
میاں کا علم ہی اٹھا تو پھر میاں کب تک
طبیعتوں کا نمو ہے ہوائے مغرب میں
یہ غیرتیں یہ حرارت یہ گرمیاں کب تک
عوام باندھ لیں دوہر تو تھرڈ وانٹر میں
سکنڈ و فرسٹ کی ہوں بند کھڑکیاں کب تک
جو منہ دکھائی کی رسموں پہ ہے مصر ابلیس
چھپیں گی حضرت حوا کی بیٹیاں کب تک
جناب حضرت اکبرؔ ہیں حامئ پردہ
مگر وہ کب تک اور ان کی رباعیاں کب تک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |