بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
کوئی انداز سے مارا تو کوئی ناز سے مارا
کسی کو گرمیٔ تقریر سے اپنی لگا رکھا
کسی کو منہ چھپا کر نرمیٔ آواز سے مارا
ہمارا مرغ دل چھوڑا نہ آخر اس شکاری نے
گہے شاہین پھینکے اس پہ گاہے باز سے مارا
غزل پڑھتے ہی میری یہ مغنی کی ہوئی حالت
کہ اس نے ساز مارا سر سے اور سر ساز سے مارا
نکالی رسم تیغ و طشت دلی میں جزاک اللہ
کہ مارا تو ہمیں تو نے پر اک اعزاز سے مارا
نہ اڑتا مرغ دل تو چنگل شاہیں میں کیوں پھنستا
گیا یہ خستہ اپنی خوبیٔ پرواز سے مارا
جہاں تک ساز داری ہے لکھی دشمن کے طالع میں
ہمیں بد نام کر کے طالع نا ساز سے مارا
ہزاروں رنگ اس کے خون نے یاروں کو دکھلائے
جب اس نے مصحفیؔ کو اپنی تیغ ناز سے مارا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |