بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں

بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316231بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیںغلام علی ہمدانی مصحفی

بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
گویا ساون کی ہیں جھڑی آنکھیں

نرگس آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے
یاد کر وہ بڑی بڑی آنکھیں

شرر افشانیٔ سرشک سے رات
تھیں مری جیسے پھلجھڑی آنکھیں

جوں قلمرو رہی ہیں اشک سیاہ
دیکھ اس مسی کی دھڑی آنکھیں

مصحفیؔ دیکھ بد بلا ہے وہ شوخ
نہ ملا اس سے ہر گھڑی آنکھیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.