بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
گویا ساون کی ہیں جھڑی آنکھیں
نرگس آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے
یاد کر وہ بڑی بڑی آنکھیں
شرر افشانیٔ سرشک سے رات
تھیں مری جیسے پھلجھڑی آنکھیں
جوں قلمرو رہی ہیں اشک سیاہ
دیکھ اس مسی کی دھڑی آنکھیں
مصحفیؔ دیکھ بد بلا ہے وہ شوخ
نہ ملا اس سے ہر گھڑی آنکھیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |