بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا
بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا
مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہوگا
تفحص فائدہ ناصح تدارک تجھ سے کیا ہوگا
وہی پاوے گا میرا درد دل جس کا لگا ہوگا
کسو کو شوق یا رب بیش اس سے اور کیا ہوگا
قلم ہاتھ آ گئی ہوگی تو سو سو خط لکھا ہوگا
دکانیں حسن کی آگے ترے تختہ ہوئی ہوں گی
جو تو بازار میں ہوگا تو یوسف کب بکا ہوگا
معیشت ہم فقیروں کی سی اخوان زماں سے کر
کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہوگا
خیال اس بے وفا کا ہم نشیں اتنا نہیں اچھا
گماں رکھتے تھے ہم بھی یہ کہ ہم سے آشنا ہوگا
قیامت کر کے اب تعبیر جس کو کرتی ہے خلقت
وہ اس کوچے میں اک آشوب سا شاید ہوا ہوگا
عجب کیا ہے ہلاک عشق میں فرہاد و مجنوں کے
محبت روگ ہے کوئی کہ کم اس سے جیا ہوگا
نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہوگا
بہت ہم سایے اس گلشن کے زنجیری رہا ہوں میں
کبھو تم نے بھی میرا شور نالوں کا سنا ہوگا
نہیں جز عرش جاگا راہ میں لینے کو دم اس کے
قفس سے تن کے مرغ روح میرا جب رہا ہوگا
کہیں ہیں میرؔ کو مارا گیا شب اس کے کوچے میں
کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اٹھ گیا ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |