بھویں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا
بھویں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا
کچھ آج بولتا ہے وہ ہم سے رکا ہوا
جو چاہتا ہے دل کو مرے دل دہی کرے
سودا یہ ہے قدیم سے یوں ہی چکا ہوا
اوسوں گئی ہے پیاس کہیں دیدۂ نمیں
بجھتا ہے آنسوؤں سے کہاں دل پھنکا ہوا
ایوب صابر اور وو کنعاں کے پیر سے
میرے سے زور و شور کا صبر و بکا ہوا
ان چتونوں چرائے دبے پاؤں اظفریؔ
دیکھو کدھر چلا ہے چھپا اور لُکا ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |