بھڑک اٹھیں گے شعلے ایک دن دنیا کی محفل میں
بھڑک اٹھیں گے شعلے ایک دن دنیا کی محفل میں
کہاں تک جذب ہوں گی بجلیاں صبر آزما دل میں
لہو رونے لگیں گے ساز عشرت چھیڑنے والے
ارے یہ درد آواز شکست شیشۂ دل میں
یہ چھینٹیں خون کی کافی ہیں میرے بخشوانے کو
نظر آتی ہے جنت وسعت دامان قاتل میں
ابد تک کوکب بخت سعادت بن کے چمکیں گے
ہوئے ہیں جذب جو قطرے لہو کے تیغ قاتل میں
جنون بے سر و ساماں کی زینت دیکھنے والے
مبادا فرق آئے عشق کی تدبیر منزل میں
ہزاروں سال سوز دل نے کی تھی دوزخ آشامی
قدم رکھتے ہی میرے لگ گئی اک آگ محفل میں
مگر بھولے نہیں ہو یاد اب تک ابرؔ و حامدؔ کی
عزیزؔ آخر وہ قوت کیوں نہیں باقی رہی دل میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |