بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا
بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا
جنوں ذرا مری زنجیر کو ہلا دینا
ترے لبوں سے اگر ہو سکے مسیحائی
تو ایک بات میں جیتا ہوں میں جلا دینا
اب آگے دیکھیو جیتوں نہ جیتوں یا قسمت
مری بساط میں دل ہے اسے لگا دینا
رہوں نہ گرمیٔ مجلس سے میں تری محروم
سپندوار مجھے بھی ذرا تو جا دینا
خدا کرے تری زلف سیہ کی عمر دراز
کبھی بلا مجھے لینا کبھی دعا دینا
برنگ غنچہ زر گل کے تئیں گرہ مت باندھ
فغاںؔ جو ہاتھ میں آوے اسے اڑا دینا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |