بہار کا روپ بھی نگاہوں میں اک فریب بہار سا ہے
بہار کا روپ بھی نگاہوں میں اک فریب بہار سا ہے
حیات میں دل کشی نہیں ہے حیات میں انتشار سا ہے
زمانہ کیا دیکھیے دکھائے نہ جانے کیا انقلاب آئے
فلک کے تیور میں خشمگیں سے زمیں کے دل میں غبار سا ہے
کمال دیوانگی تو جب ہے رہے نہ احساس جیب و دامن
اگر ہے احساس جیب و دامن تو پھر جنوں ہوشیار سا ہے
کچھ آج ایسی ہی جی پہ گزری دبی ہوئی تھی جو چوٹ ابھری
جسے سنبھالے ہوا تھا دل میں وہ نالہ بے اختیار سا ہے
ابھی امید و وفا نہ توڑو سیاست دلبری نہ چھوڑو
کبھی جو فردوس رنگ و بو تھا وہ ایک اجڑا دیار سا ہے
نہالؔ کو بے پئے ہے مستی ہے مفت الزام مے پرستی
ہے عام اس شہر میں روایت یہ شخص کچھ بادہ خوار سا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |