بہے ساتھ اشک کے لخت جگر تک
بہے ساتھ اشک کے لخت جگر تک
نہ کی اس نے مری جانب نظر تک
عبث صیاد کو ہے بد گمانی
نہیں بازو میں اپنے ایک پر تک
خبر آئی مریض درد و غم کی
کہیں پہنچے خبر اس بے خبر تک
نزاکت سے لگی بل کرنے کیا کیا
ابھی گیسو نہ پہنچے تھے کمر تک
جئے جاتے ہیں شکل شمع سوزاں
نہ کچھ باقی رہیں گے ہم سحر تک
اگر میں یاد ہوتا تو نہ آتے
مگر بھولے سے آئے میرے گھر تک
دم گریہ تھی غالب ناتوانی
پہنچتے لخت دل کیا چشم تر تک
خدا جانے اثرؔ کو کیا ہوا ہے
رہا کرتا ہے چپ دو دو پہر تک
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |