بہ خدا ہیں تری ہندو بت مے خوار آنکھیں
بہ خدا ہیں تری ہندو بت مے خوار آنکھیں
نشہ کی ڈوری نہیں پہنے ہیں زنار آنکھیں
چشم آہو سے غرض تھی نہ مجھے نرگس سے
تیری آنکھوں سے جو ملتیں نہ یہ دو چار آنکھیں
چار چشم اس لئے کہتا ہے مجھے اک عالم
کہ مری آنکھوں میں پھرتی ہیں تری یار آنکھیں
دیکھتے رہتے ہیں ہم راہ تمہاری صاحب
آپ آتے نہیں آ جاتی ہیں ہر بار آنکھیں
پیار سے میں نے جو دیکھا تو وہ فرماتے ہیں
دیکھیے دیکھیے ہوتی ہیں گنہ گار آنکھیں
چوم لیتے ہیں وہ آئینے میں آنکھیں اپنی
لب مسیحائی کریں گے کہ ہیں بیمار آنکھیں
آگرہ چھوٹ گیا مہرؔ تو چنار میں بھی
ڈھونڈا کرتی ہیں وہی کوچہ و بازار آنکھیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |