بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
کرتے تو ہم اپنا ہی کچھ تم سے گلہ کرتے
تقدیر محبت تھی مر مر کے جیے جانا
جینا ہی مقدر تھا ہم مر کے بھی کیا کرتے
مہلت نہ ملی غم سے اتنی بھی کہ حال اپنا
ہم آپ کہا کرتے اور آپ سنا کرتے
نادم اسے چاہا تھا جان اس پہ فدا کر کے
تدبیر تو اچھی تھی تقدیر کو کیا کرتے
احباب سے کیا کہئے اتنا نہ ہوا فانیؔ
جب ذکر مرا آتا مرنے کی دعا کرتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |