بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے

بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
by فانی بدایونی
299833بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتےفانی بدایونی

بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
کرتے تو ہم اپنا ہی کچھ تم سے گلہ کرتے

تقدیر محبت تھی مر مر کے جیے جانا
جینا ہی مقدر تھا ہم مر کے بھی کیا کرتے

مہلت نہ ملی غم سے اتنی بھی کہ حال اپنا
ہم آپ کہا کرتے اور آپ سنا کرتے

نادم اسے چاہا تھا جان اس پہ فدا کر کے
تدبیر تو اچھی تھی تقدیر کو کیا کرتے

احباب سے کیا کہئے اتنا نہ ہوا فانیؔ
جب ذکر مرا آتا مرنے کی دعا کرتے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.