Author:فانی بدایونی
فانی بدایونی (1879 - 1961) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
- دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
- آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
- ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
- ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
- نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
- اے اجل اے جان فانیؔ تو نے یہ کیا کر دیا
- جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بنا ڈالی
- مآل سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
- بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
- اک فسانہ سن گئے اک کہہ گئے
- زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
- ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
- کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
- کیا چھپاتے کسی سے حال اپنا
- آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
- اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
- سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا
- بے خودی پہ تھا فانیؔ کچھ نہ اختیار اپنا
- ہر سانس کے ساتھ جا رہا ہوں
- ہر گھڑی انقلاب میں گزری
- جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
- بے ذوق نظر بزم تماشا نہ رہے گی
- مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
- رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
- لطف و کرم کے پتلے ہو اب قہر و ستم کا نام نہیں
- دل کی کایا غم نے وہ پلٹی کہ تجھ سا بن گیا
- تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
- ڈرو نہ تم کہ نہ سن لے کہیں خدا میری
- دیر میں یا حرم میں گزرے گی
- عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہو کر
- مایۂ ناز راز ہیں ہم لوگ
- ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
- شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
- مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
- وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
- محتاج اجل کیوں ہے خود اپنی قضا ہو جا
- جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
- اب انہیں اپنی اداؤں سے حجاب آتا ہے
- آپ سے شرح آرزو تو کریں
- اے موت تجھ پہ عمر ابد کا مدار ہے
- جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
- دل کی طرف حجاب تکلف اٹھا کے دیکھ
- خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
- دل کی ہر لرزش مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
- کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے
- میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
- مجھ کو مرے نصیب نے روز ازل سے کیا دیا
- خدا اثر سے بچائے اس آستانے کو
- آہ سے یا آہ کی تاثیر سے
- زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں
- اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
- یاں ہوش سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتا
- زیست کا حاصل بنایا دل جو گویا کچھ نہ تھا
- کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
- قسم نہ کھاؤ تغافل سے باز آنے کی
- جن خاک کے ذروں پر وہ سایۂ محمل تھا
- وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
- بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
- دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
- نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا
- لے اعتبار وعدۂ فردا نہیں رہا
- جذب دل جب بروئے کار آیا
- خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
- دل اور دل میں یاد کسی خوش خرام کی
- بے اجل کام نہ اپنا کسی عنواں نکلا
- تاکید ہے کہ دیدۂ دل وا کرے کوئی
- کیا کہیے کہ بیداد ہے تیری بیداد
- حاصل علم بشر جہل کا عرفاں ہونا
- قصۂ زیست مختصر کرتے
- قطرہ دریائے آشنائی ہے
- جلوۂ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا
- نہیں منظور تپ ہجر کا رسوا ہونا
- وہ مشق خوئے تغافل پھر ایک بار رہے
- کوچۂ جاناں میں جا نکلے جو غلماں بھول کر
- مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
- مر کر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
- کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قرباں ہو جائے
- یہ کس قیامت کی بیکسی ہے زمیں ہی اپنا نہ یار میرا
- گزر گیا انتظار حد سے یہ وعدۂ ناتمام کب تک
- ہر تبسم کو چمن میں گریہ ساماں دیکھ کر
- ہو کاش وفا وعدۂ فردائے قیامت
- مزاج دہر میں ان کا اشارہ پائے جا
- وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
- واہمہ کی یہ مشق پیہم کیا
- شباب ہوش کہ فی الجملہ یادگار ہوئی
- کچھ کم تو ہوا رنج فراوان تمنا
- سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
- تیرا نگاہ شوق کوئی راز داں نہ تھا
- وادئ شوق میں وارفتۂ رفتار ہیں ہم
- جستجوئے نشاط مبہم کیا
- ستم ایجاد رہوگے ستم ایجاد رہے
- وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
- یوں نظم جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا
نظم
editرباعی
edit
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |