بیٹھے ہوئے ہیں ہم خود آنکھوں میں دھول ڈالے

بیٹھے ہوئے ہیں ہم خود آنکھوں میں دھول ڈالے
by مضطر خیرآبادی

بیٹھے ہوئے ہیں ہم خود آنکھوں میں دھول ڈالے
اے روئے یار تو نے پردے فضول ڈالے

جھگڑا ہی تم چکا دو جب تیغ کھینچ لی ہے
آفت میں پھر نہ مجھ کو جان ملول ڈالے

صورت تو ایک ہی تھی دو گھر ہوئے تو کیا ہے
دیر و حرم کی بابت جھگڑے فضول ڈالے

تربت سے کوئی پوچھے نیرنگئ زمانہ
بعضوں نے خاک ڈالی بعضوں نے پھول ڈالے

کہتے ہیں جس کو جلوہ وہ بھی کہیں رکا ہے
آڑیں فضول کی ہیں پردے فضول ڈالے

صدقے دل و جگر کو مژگاں پہ کر چکا ہوں
میں نے تو اپنے ہاتھوں کانٹوں پہ پھول ڈالے

کیسے حساب جوڑوں اعمال معصیت کا
جب اس کی شان رحمت گنتی میں بھول ڈالے

مضطرؔ دلوں کے اندر رکھنے کے تھے یہ کافر
دوزخ میں کیوں خدا نے جنت کے پھول ڈالے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse