بیچنے آئے کوئی کیا دل شیدا لے کر

بیچنے آئے کوئی کیا دل شیدا لے کر
by بیخود دہلوی

بیچنے آئے کوئی کیا دل شیدا لے کر
دام دیتے ہی نہیں آپ تو سودا لے کر

چار دن بھی تو نہ رکھا دل شیدا لے کر
آپ نے ہم سے بھی کمبخت کو کھویا لے کر

قتل کے بعد نزاکت سے جو تھک جاتے ہیں
بیٹھ جاتے ہیں وہ کشتے کا سہارا لے کر

غیر کا قتل کچھ ایسا تو نہیں ہے مشکل
چھوڑ دو ہاتھ کوئی نام ہمارا لے کر

سانس کے ساتھ جو ہوتی ہے کھٹک سینے میں
ضعف سے درد بھی اٹھتا ہے سہارا لے کر

آ گیا مجھ کو نظر اپنی وفا کا انجام
میں نے تلوار کو قاتل سے جو دیکھا لے کر

اب تو بیخودؔ کو یہ دعویٰ ہے بقول استاد
آدمی عشق کرے نام ہمارا لے کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse