Author:بیخود دہلوی
بیخود دہلوی (1863 - 1955) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- عاشق سمجھ رہے ہیں مجھے دل لگی سے آپ
- دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر
- ایسا بنا دیا تجھے قدرت خدا کی ہے
- بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا
- آ گئے پھر ترے ارمان مٹانے ہم کو
- حجاب دور تمہارا شباب کر دے گا
- بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
- مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
- عدو کے تاکنے کو تم ادھر دیکھو ادھر دیکھو
- پچھتاؤگے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھی
- بیتاب رہیں ہجر میں کچھ دل تو نہیں ہم
- وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی
- معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا
- عاشق ہیں مگر عشق نمایاں نہیں رکھتے
- ہر ایک بات تری بے ثبات کتنی ہے
- دونوں ہی کی جانب سے ہو گر عہد وفا ہو
- شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا
- منہ پھیر کر وہ کہتے ہیں بس مان جائیے
- کب تک کریں گے جبر دل ناصبور پر
- ہیں نکہت گل باغ میں اے باد صبا ہم
- آپ ہیں بے گناہ کیا کہنا
- جھوٹ سچ آپ تو الزام دیئے جاتے ہیں
- جو تماشا نظر آیا اسے دیکھا سمجھا
- کیا ملے آپ کی محفل میں بھلا ایک سے ایک
- دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں
- کیوں کہہ کے دل کا حال اسے بد گماں کروں
- وہ سن کر حور کی تعریف پردے سے نکل آئے
- صبر آتا ہے جدائی میں نہ خواب آتا ہے
- لڑائیں آنکھ وہ ترچھی نظر کا وار رہنے دیں
- خدا رکھے تجھے میری برائی دیکھنے والے
- جو تجھے امتحان دیتا ہے
- ہوا جو وقف غم وہ دل کسی کا ہو نہیں سکتا
- شوق اپنا آپ میں اپنی زباں سے کیوں کہوں
- دل ہے مشتاق جدا آنکھ طلب گار جدا
- عدو کو دیکھ کے جب وہ ادھر کو دیکھتے ہیں
- تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیا
- نہ کیوں کر نذر دل ہوتا نہ کیوں کر دم مرا جاتا
- اب کسی بات کا طالب دل ناشاد نہیں
- دل چرا لے گئی دزدیدہ نظر دیکھ لیا
- رات بھر گردش تھی ان کے پاسبانوں کی طرح
- اور ساقی پلا ابھی کیا ہے
- اٹھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹھے
- بیچنے آئے کوئی کیا دل شیدا لے کر
- حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں
- بات کرنے کی شب وصل اجازت دے دو
- اب اس سے کیا تمہیں تھا یا امیدوار نہ تھا
- نہ سہی آپ ہمارے جو مقدر میں نہیں
- نہ ارماں بن کے آتے ہیں نہ حسرت بن کے آتے ہیں
- میرے ہمراہ مرے گھر پہ بھی آفت آئی
- قیامت ہے جو ایسے پر دل امیدوار آئے
- جتائے جاتے ہیں احسان بھی ستا کے مجھے
- وہ اور تسلی مجھے دیں ان کی بلا دے
- تیشے سے کوئی کام نہ فرہاد سے ہوا
- بنی تھی دل پہ کچھ ایسی کی اضطراب نہ تھا
- ٹوٹے پڑتے ہیں یہ ہیں کس کے خریدار تمام
- تم ہمارے دل شیدا کو نہیں جانتے کیا
- لطف سے مطلب نہ کچھ میرے ستانے سے غرض
- ہو کے مجبور آہ کرتا ہوں
نعت
edit
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |