بے بلائے ہوئے جانا مجھے منظور نہیں
بے بلائے ہوئے جانا مجھے منظور نہیں
ان کا وہ طور نہیں میرا یہ دستور نہیں
لن ترانی کے یہ معنی ہیں بجا ہے دعویٰ
دیکھے بے پردہ تجھے کوئی یہ مقدور نہیں
وہ کہاں تاج کہاں تخت کہاں مال و منال
قابل اب بھیک کے بھی کاسۂ فغفور نہیں
بے عبادت نہ خدا بخشے گا سبحان اللہ
ایسی فردوس سے ہم گزرے کہ مزدور نہیں
میں وہ مے کش ہوں نہ رکھوں کبھی بھولے سے قدم
کوئی کہہ دے یہ اگر خلد میں انگور نہیں
دم بہ دم اٹھتے ہیں طوفان جو برقؔ اشکوں کے
نوح کا وقت نہیں آنکھ ہے تنور نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |