Author:مرزارضا برق
مرزارضا برق (1790 - 1857) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا
- وہ شاہ حسن جو بے مثل ہے حسینوں میں
- وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے
- شمع بھی اس صفا سے جلتی ہے
- رنگ سے پیرہن سادہ حنائی ہو جائے
- قمر کی وہ خورشید تصویر ہے
- پردہ الٹ کے اس نے جو چہرا دکھا دیا
- نہ رہے نامہ و پیغام کے لانے والے
- نہ کوئی ان کے سوا اور جان جاں دیکھا
- مثال تار نظر کیا نظر نہیں آتا
- مطلب نہ کعبہ سے نہ ارادہ کنشت کا
- میں اگر رونے لگوں رتبۂ والا بڑھ جائے
- لاکھ پردے سے رخ انور عیاں ہو جائے گا
- لب رنگیں سے اگر تو گہر افشاں ہوتا
- کس طرح ملیں کوئی بہانا نہیں ملتا
- جب عیاں صبح کو وہ نور مجسم ہو جائے
- گیا شباب نہ پیغام وصل یار آیا
- دیکھی جو زلف یار طبیعت سنبھل گئی
- چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا
- بے بلائے ہوئے جانا مجھے منظور نہیں
- اثر زلف کا برملا ہو گیا
- اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |