بے خوف غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہو

بے خوف غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہو
by محمد علی جوہر

بے خوف غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہو
بہتر ہے اس سے یہ کہ سرے سے زباں نہ ہو

ہوں بے ہراس یہ مجھے رکھیں کسی جگہ
ڈر ہو وہاں کہ تیری حکومت جہاں نہ ہو

اک تو جو مہرباں ہو تو ہر اک ہو مہرباں
اور یوں نہ ہو بلا سے کوئی مہرباں نہ ہو

ہم کو تو ایک تجھ سے دو عالم میں ہے غرض
سب بدگماں ہوا کریں تو بدگماں نہ ہو

دیر و حرم میں ڈھونڈ کے سب تھک گئے اسے
اب کون کہہ سکے کہ کہاں ہو کہاں نہ ہو

کرنا ہی تھا حرام تو پھر وعدہ کس لیے
یہ کیا کہ مے حلال وہاں ہو یہاں نہ ہو

ہمت نہ ہار دے کوئی منزل کے سامنے
پروردگار یوں بھی کوئی ناتواں نہ ہو

ملنے تو پھر چلے ہو مشیخت پناہ سے
قشقہ کا دیکھو آج جبیں پر نشاں نہ ہو

جوہرؔ اس ایک دل کے لیے اتنے مشغلے
کی ہے خدا کی چاہ تو عشق بتاں نہ ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse