بے دلوں کی آبرو رہ جائے گی
بے دلوں کی آبرو رہ جائے گی
دل نہ ہوگا آرزو رہ جائے گی
طاقت دیدار کتنی ہی سہی
پھر بھی تیرے روبرو رہ جائے گی
ڈھونڈنے والا ہی خود کھو جائے گا
جستجو ہی جستجو رہ جائے گی
خون دل کو کچھ اگر توفیق ہو
چشم تر کی آبرو رہ جائے گی
بے محابا اس کو اے ناطقؔ نہ دیکھ
آرزوئے گفتگو رہ جائے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |