Author:ناطق لکھنوی
ناطق لکھنوی (1878 - 1950) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- دراز اتنا مری قید کا زمانہ تھا
- جسے ڈھونڈا اسے پایا اسے تدبیر کہتے ہیں
- قید میں بھی ہے جنوں دست و گریباں ہم سے
- میں جو یہ آشیاں بناتا ہوں
- اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
- فراق یار کا خطرہ وصال یار میں ہے
- آنسوؤں سے خون کے اجزا بدلتے جائیں گے
- بے دلوں کی آبرو رہ جائے گی
- ایک دنیا مست اک عالم خراب
- کیا بتاؤں دل کہاں ہے اور کس جا درد ہے
- کبھی دامان دل پر داغ مایوسی نہیں آیا
- تیرے سوا نگاہوں میں اے یار کون ہے
- نہ قطرہ کم ہے نہ کافی تمام مے خانہ
- صدقے ترے ہوتے ہیں سورج بھی ستارے بھی
- فروغ مہر سے رندوں کا آخر کام کیا ہوگا
- خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے
- وقت رخصت چلتے چلتے کہہ گئے
- دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا
- پرتو نور بھی ہے جوہر تنویر بھی ہے
- مرے مقدر میں جو لکھا تھا نصیب سے وہ پہنچ نہ پایا
- مجھ سے افسردہ نہ اے جوش بہاراں ہونا
- ہے وہی ناز آفریں آئینہ نیاز میں
- یہ دل نہیں نور کا ہے شعلہ کسی کو اس سے ضرر نہیں ہے
- جو میرے دل میں سہو تری یاد سے ہوا
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |