بے لاگ ہیں ہم ہم کو رکاوٹ نہیں آتی
بے لاگ ہیں ہم ہم کو رکاوٹ نہیں آتی
کیا بات بناویں کہ بناوٹ نہیں آتی
ہے دھیان لگا در کی طرف پر کئی دن سے
کانوں میں ترے پانو کی آہٹ نہیں آتی
دندان ہوس سے اسے مسلہ ہے کسو نے
بوسے سے تو لب پر یہ نلاہٹ نہیں آتی
کاجل نے تری آنکھوں میں جو لطف دیا ہے
ہر ایک کے حصے یہ گھلاوٹ نہیں آتی
کیا جامۂ چسپاں کا ترے وصف کروں میں
تقریر میں کچھ اس کی سجاوٹ نہیں آتی
ہے رنگ سیاہی لیے جوں اس کی حنا کا
ہاتھوں پہ ہر اک کے یہ اداہٹ نہیں آتی
اے مصحفیؔ بیٹھے ہیں ہم اس بزم میں خاموش
کیا بات بناویں کہ بناوٹ نہیں آتی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |