بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا

بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا
by بیخود دہلوی
318811بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گابیخود دہلوی

بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا
تیرے ہوتے اس صفت کا دوسرا ہو جائے گا

شرط کر لو پھر مجھے برباد ہونا بھی قبول
خاک میں مل کر تو حاصل مدعا ہو جائے گا

سر نہ ہوگا دوش پر تو کیا نہ ہوگی گفتگو
ہچکیوں سے شکر قاتل کا ادا ہو جائے گا

سینہ توڑا دل میں چٹکی لی جگر زخمی کیا
کیا خبر تھی تیر بھی تیری ادا ہو جائے گا

میرے کہنے میں ہے دل جب تک مرے پہلو میں ہے
آپ لے لیجے اسے یہ آپ کا ہو جائے گا

ساتھ ان کے جان بھی ارمان بھی جائیں گے آج
صبح سے پہلے روانہ قافلہ ہو جائے گا

میں ملوں تلووں سے آنکھیں وہ کہیں سمجھوں گا میں
یاد رکھ پھیکا اگر رنگ حنا ہو جائے گا

پھر وہی جھگڑے کا جھگڑا ہے اگر قم کہہ دیا
تیغ کا منسوخ سارا فیصلا ہو جائے گا

کس خوشی میں ہائے کیسا رنج پھیلا کیا کروں
کیا خبر تھی ہنستے ہنستے وہ خفا ہو جائے گا

حشر تک کیوں بات جائے کیوں پڑے غیروں کے منہ
گھر میں سمجھوتا ہمارا آپ کا ہو جائے گا

آنکھ سے ہے وصل کا اقرار دل دگدا میں ہے
تم زباں سے اپنی کہہ دوگے تو کیا ہو جائے گا

ظلم سے گر ذبح بھی کر دو مجھے پروا نہیں
لطف سے ڈرتا ہوں یہ میری قضا ہو جائے گا

اس نے چھیڑا تھا مجھے تم جان دوگے کب ہمیں
کہہ دیا میں نے بھی جب وعدہ وفا ہو جائے گا

یوں سوال وصل پر ٹالا کیا برسوں کوئی
صبر کر مضطر نہ ہو تیرا کہا ہو جائے گا

لاکھ دنیا میں حسیں ہوں لاکھ حوریں خلد میں
مجھ کو جو تو ہے وہ کوئی دوسرا ہو جائے گا

توبہ بھی کر لی تھی یہ بھی نشہ کی تھی اک ترنگ
آپ سمجھے تھے کہ بیخودؔ پارسا ہو جائے گا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.