تاب دل صرف جدائی ہو چکی
تاب دل صرف جدائی ہو چکی
یعنی طاقت آزمائی ہو چکی
چھوٹتا کب ہے اسیر خوش زباں
جیتے جی اپنی رہائی ہو چکی
آگے ہو مسجد کے نکلی اس کی راہ
شیخ سے اب پارسائی ہو چکی
درمیاں ایسا نہیں اب آئینہ
میرے اس کے اب صفائی ہو چکی
ایک بوسہ مانگتے لڑنے لگے
اتنے ہی میں آشنائی ہو چکی
بیچ میں ہم ہی نہ ہوں تو لطف کیا
رحم کر اب بے وفائی ہو چکی
آج پھر تھا بے حمیت میرؔ واں
کل لڑائی سی لڑائی ہو چکی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |