تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
منہ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا
نا توانوں کے سہارے کو ہے یہ بھی کافی
دامن لطف غبار پس محمل دینا
ذوق میں صورت موج آ کے فنا ہو جاؤں
کوئی بوسہ تو بھلا اے لب ساحل دینا
ہائے رے ہائے تری عقدہ کشائی کے مزے
تو ہی کھولے جسے وہ عقدۂ مشکل دینا
ایک فتنہ ہے قیامت میں بہار فردوس
جز ترے کچھ بھی نہ چاہے مجھے وہ دل دینا
درد کا کوئی محل ہی نہیں جب دل کے سوا
مجھ کو ہر عضو کے بدلے ہمہ تن دل دینا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |