تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں
تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں
ہم بھی نیند کی صورت اڑتے جاتے ہیں
جب انداز بہاروں کے یاد آتے ہیں
ہم کاغذ پر کیا کیا پھول بناتے ہیں
وقت کا پتھر بھاری ہوتا جاتا ہے
ہم مٹی کی صورت دیتے جاتے ہیں
کیا ذروں کا جوش صبا نے چھین لیا
گلشن میں کیوں یاد بگولے آتے ہیں
دنیا نے ہر بات میں کیا کیا رنگ بھرے
ہم سادہ اوراق الٹتے جاتے ہیں
دل ناداں ہے شاید راہ پہ آ جائے
تم بھی سمجھاؤ ہم بھی سمجھاتے ہیں
تم بھی الٹی الٹی باتیں پوچھتے ہو
ہم بھی کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہیں
بیٹھ کے روئیں کس کو فرصت ہے باقیؔ
بھولے بسرے قصے یاد تو آتے ہیں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |