تا حشر رہے یہ داغ دل کا
تا حشر رہے یہ داغ دل کا
یارب نہ بجھے چراغ دل کا
ہم سے بھی تنک مزاج ہے یہ
پاتے ہی نہیں دماغ دل کا
یاں آتش عشق سے شب و روز
دہکے ہے پڑا ایاغ دل کا
اس رشک چمن کی یاد میں ہے
شاداب ہمیشہ باغ دل کا
جینے کا مزا اسی کو ہے بس
جس شخص کو ہو فراغ دل کا
ہے بادۂ غم سے تیرے دن رات
لبریز یہاں ایاغ دل کا
معلوم نہیں کسی کو رنگیںؔ
دے کون ہمیں سراغ دل کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |