تا سحر کی ہے فغاں جان کے غافل مجھ کو
تا سحر کی ہے فغاں جان کے غافل مجھ کو
رات بھر آج پکارا ہے مرا دل مجھ کو
درد و غم سے جو تپاں تھا وہ ملا دل مجھ کو
اس لیے دفن کیا ہے لب ساحل مجھ کو
بار حسن آپ سے لیلیٰ کا اٹھایا نہ گیا
نہ لیا قیس نے جس کو وہ ملا دل مجھ کو
غیر پھر غیر ہیں آخر ہیں پھر اپنے اپنے
یاد کرتا ہے ترے پاس مرا دل مجھ کو
بار خاطر ہی اگر ہے تو عنایت کیجے
آپ کو حسن مبارک ہو مرا دل مجھ کو
فصل گل آتے ہی صحراے عدم کو پہونچا
روکتے رہ گئے اغلال و سلاسل مجھ کو
مر گیا اشک جو آنکھوں سے بہے آہ کے ساتھ
آ گئی نیند ہوا میں لب ساحل مجھ کو
کیا عداوت ہے کہ جس دن سے ہوا ہوں زخمی
دیکھ جاتا ہے وہ رشک مہ کامل مجھ کو
شب کو تم سوئی تھی کیا سوئے فلک منہ کر کے
نظر آیا نہ سحر تک مہ کامل مجھ کو
پاؤں تک زلف تری یار بڑھ آئی شاید
آج بھاری نظر آتی ہے سلاسل مجھ کو
اثر ضعف سے ہوں قطرۂ اشک خونی
رحم کر دے کفن دامن قاتل مجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |