تجھے خلق کہتی ہے خود نما تجھے ہم سے کیوں یہ حجاب ہے

تجھے خلق کہتی ہے خود نما تجھے ہم سے کیوں یہ حجاب ہے
by پنڈت جواہر ناتھ ساقی
317234تجھے خلق کہتی ہے خود نما تجھے ہم سے کیوں یہ حجاب ہےپنڈت جواہر ناتھ ساقی

تجھے خلق کہتی ہے خود نما تجھے ہم سے کیوں یہ حجاب ہے
ترا جلوہ تیرا ہے پردہ در تیرے رخ پہ کیوں یہ نقاب ہے

تجھے حسن مایۂ ناز ہے دل خستہ محو نیاز ہے
کہوں کیا یہ قصۂ راز ہے مرا عشق خانہ خراب ہے

یہ رسالہ عشق کا ہے ادق ترے غور کرنے کا ہے سبق
کبھی دیکھ اس کو ورق ورق مرا سینہ غم کی کتاب ہے

تری جذب میں ہے ربودگی تیرے سکر میں ہے غنودگی
نہ خبر شہود و وجود کی نہ ترنگ موج سراب ہے

یہ وہی ہے ساقیؔٔ شیفتہ جو ہے دل سے تیرا فریفتہ
یہ ہے تیرا بندہ گریختہ کہ جو خاکسار تراب ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.