تجھے کچھ یاد ہے پہلا وہ عالم عشق پنہاں کا
تجھے کچھ یاد ہے پہلا وہ عالم عشق پنہاں کا
شگاف پردہ سے کیا تھا اشارہ چشم فتاں کا
سنا ہے کب یہ چھٹتی ہے پکڑ گوشہ نہ داماں کا
سمجھ کاجل نہ پھیلا سایہ ہے تیری ہی مژگاں کا
یہاں دم کھینچنا دو دوپہر مشکل ہے ہو جاتا
دھواں گھٹتا ہے جب سینہ میں اپنی آہ سوزاں کا
نہ کی غمزہ نے جلادی نہ ان آنکھوں نے سفاکی
جسے کہتے ہیں دل اپنا وہی قاتل ہوا جاں کا
شگاف سینہ سے ازبسکہ دود دل نکلتا ہے
سیہ اب جا بجا سے رنگ ہے اپنے گریباں کا
یہ دل ہے قطرۂ خوں سے بھی کم اللہ ری جرأت
ہوا ہے تسپہ روکش اس خدنگ انداز مژگاں کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |