تجھ بنا دل کو بے قراری ہے
تجھ بنا دل کو بے قراری ہے
دم بدم مجھ کو آہ و زاری ہے
ہاتھ تیرے جو دیکھی ہے تلوار
آرزو دل کو جاں سپاری ہے
مجھ کو اوروں سے کچھ نہیں ہے کام
تجھ سے ہر دم امیدواری ہے
ہم سے تجھ کو نہیں ملاپ کبھی
یہ مگر جگ میں طور یاری ہے
آہ کوں دل میں میں چھپاتا ہوں
لازم عشق پردہ داری ہے
گر رہا تیری راہ پر فائزؔ
عشق کی شرط خاکساری ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |