تجھ کو آتی ہے دلاسے کی نہیں بات کوئی
تجھ کو آتی ہے دلاسے کی نہیں بات کوئی
کس طرح تجھ سے رکھے جان ملاقات کوئی
لگ چلے تجھ سے وہ کھانی ہو جسے لات کوئی
ہاتھ کس طرح لگا دے تجھے ہیہات کوئی
ڈر سے میں چپ ہوں ترے ورنہ بھری مجلس میں
بات کرتا ہے کوئی تجھ سے اشارات کوئی
مل گئے راہ میں کل وہ تو کہا رنگیںؔ نے
کس طرح تم سے کرے اب بسر اوقات کوئی
کچھ تو انصاف بھلا کیجئے دل میں اپنے
تم نے مانی بھی کبھی میری اجی بات کوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |