تحیات اے عزیزاں بابت آل پیمبرؐ ہے

تحیات اے عزیزاں بابت آل پیمبرؐ ہے
by میر تقی میر
313523تحیات اے عزیزاں بابت آل پیمبرؐ ہےمیر تقی میر

تحیات اے عزیزاں بابت آل پیمبرؐ ہے
درود اے دوستاں شائستۂ اولاد حیدر ہے
نیاز اے حق پرستاں لائق شبیر و شبر ہے
سلام اے مومناں ایسے جو ہوں ہر لحظہ ان پر ہے

محمدؐ جس کا نانا اس کو بیکس کرکے سب ماریں
پدر ساقی کوثر جس کا اس کو تشنہ لب ماریں
سبب جو بخشش عالم کا اس کو بے سبب ماریں
حرم کا جو ہے عزت دار سو محتاج چادر ہے

ورق الٹا فلک نے یوں کہ دم میں مٹ گیا سب گھر
چنانچہ اب سخن ہر پردگی کے ہے یہی لب پر
عبارت گھر جنھوں سے تھا سو یارب کیا ہوئے یکسر
نہ سرور ہے نہ قاسم ہے نہ اصغر ہے نہ اکبر ہے

شہ ہر دوجہاں زیرنگیں معروف اور نامی
امام عارف و عامی نبیؐ کے دین کا حامی
سر اس صبح سعادت کا سناں پر لے چلے شامی
کہاں حیدر کہ جو دیکھے وہی یہ نازپرور ہے

ستم جو دیکھتا تھا ہر زماں ان جورکیشاں سے
کہے تھا عابد بیکس غم و اندوہ پنہاں سے
کہوں امیدگاہا تجھ سے کیا حال پریشاں سے
نگہ میں یاس ہر دم ہے لبوں پر شیون اکثر ہے

بہت دلجوئی امت میں تھا صرف توانائی
سو وہ امت ہمارے آج کے دن خوب کام آئی
کیا گھر بار غارت مار ڈالے بیٹے اور بھائی
خرابی آل کی دیکھے محمدؐ آہ کیدھر ہے

جگر ٹکڑے ہوا ہے کب تلک یہ سختیاں دیکھیں
نکلتی آنکھ سے یاقوت کی سی تختیاں دیکھیں
تس اوپر شام کے لوگوں کی یہ بدبختیاں دیکھیں
بلا لے پاس اپنے جلد ہم کو بھی تو بہتر ہے

کوئی کہتی تھی اے شہ یہ ستم کیا ہم پہ ہوتا ہے
نہیں کوئی پونچھتا آنسو گروہ اک غم سے روتا ہے
تو کن نیندوں سحر سے قتل گہ میں آج سوتا ہے
ہمارا شام کی جانب کو لے جانا مقرر ہے

مخاطب کرکے زہرا کو کوئی یوں غم سناتی تھی
کہ تو اے مادر مشفق سبھوں کے ناز اٹھاتی تھی
بگڑتا ٹک کسی کا حال تو ووہیں بناتی تھی
توجہ آج کیدھر ہے نہایت حال ابتر ہے

سروں کا تاج تھا جو شہ ہوا ہے خاک سے یکساں
ترا جو خانۂ دولت تھا سو یکسر ہوا ویراں
پھریں ہیں سربرہنہ عورتیں جنگل میں سرگرداں
جدھر جاتے ہیں مضطر ہو ادھر دشمن کا لشکر ہے

عجائب درہمی آئی ہے اس جمع پریشاں میں
قیامت کا سا ہنگامہ ہے برپا اک بیاباں میں
تری اس چین سے کیونکر لگی ہے آنکھ میداں میں
بلا ہے فتنہ ہے آشوب ہے اک شور ہے شر ہے

علی کی اور روے حرف جو ہوتا تھا نسواں کا
جگر پانی ہوا جاتا تھا سن کر انس اور جاں کا
کہ کہتی تھیں ہوا کیا دست تیرے لطف و احساں کا
سروں پر پنجۂ خورشید ہے جو سایہ گستر ہے

غبار دل نہ ہو کیونکر بلند آفت رسیدوں کا
نظر آتا نہیں زیر زمیں ہونا شہیدوں کا
کھلے گا کس طرح دل وائے ہم محنت کشیدوں کا
زمیں سے آسماں تک دیکھتے ہیں تو مکدر ہے

جہاں تاریک ہے بیٹے بھتیجے مر گئے سارے
رفیق ایک ایک گن کر دشمنوں نے جان سے مارے
جفائیں سہتے سہتے بازماندے شاہ کے ہارے
چراغ اک نیم کشتہ سا ہے باقی سو بھی مضطر ہے

کبھی لیتا ہے چھاتی کوٹ منھ کر کر مدینے کو
کبھو دل تنگ ہوکر نوچ لے ہے زور سینے کو
رہے کیونکر نہ وہ ہموار دل کے لوہو پینے کو
نہ جس کا کوئی ہمدم ہے نہ یاری گر نہ یاور ہے

نہیں ان کلفتوں کی تاب لائی جاتی اب ہم سے
لپٹ سی ہونٹ کو لگنے لگی ہے گرمی دم سے
درونے جل گئے شاید ہمارے آتش غم سے
ٹپکتا آنکھ سے آنسو جو ہے گویا کہ اخگر ہے

کسے آتا ہے باور اب جو کہیے شہ یہ ایسا تھا
ترا اقبال جیسا چاہیے کل تک تو ویسا تھا
سحر کو کچھ نہ تھا گویا تجھے دن آج کیسا تھا
نہ قدر و منزلت وہ ہے نہ وہ سر ہے نہ افسر ہے

نہ مانع جو ہوئے آنے کے تیرے یاں ہوا خواہاں
نہ روکا جو مزاحم ہو کسو نے کھینچ کر داماں
مگر آگہ نہ تھا کوئی کہ ہر ہر گام اوپر یاں
سناں ہے تیر ہے تلوار ہے برچھی ہے خنجر ہے

قیامت سختیاں دیکھیں ہوا احوال دل برہم
توقع رحم کی کس سے رکھیں برگشتہ ہے عالم
نہیں کرتا مصیبت پر ہماری کوئی مژگاں نم
مروت یاں نہیں ہے رسم دل ہر اک کا پتھر ہے

موئے پر وارثوں کے رسم تھی آگے ترحم کی
نہ استخفاف و استہزا و تعریض و تبسم کی
دلوں میں لہر سی آتی ہے فریاد و تظلم کی
سو عادل ہی نہ یاں کوئی نہ حاکم ہے نہ داور ہے

گئے یوں دل کو خاکی کرکے وے سب ظلم کے مارے
بلا کے مبتلا دشت غم و کربت کے آوارے
چلے جاتے تھے رہ اور کہتے جاتے تھے یہی سارے
کہ کیا چارہ ہے بے چاروں کا گریوں ہی مقدر ہے

جو کچھ اے میرؔ آگے چل کے پیش آیا انھیں مت کہہ
کہاں تک نوحہ و زاری کرے گا ہرگہ وبے گہ
یہیں سے رنگ تیرے دل کا پیدا ہے بس اب چپ رہ
کہ جو آنسو گرے ہے آنکھ سے یاقوت احمر ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.