ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے
ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے
پھر اس دل کو آزار پیدا ہوا ہے
سدا پان کھا کھا کے نکلے ہے باہر
زمانے میں خوں خوار پیدا ہوا ہے
یہ مدفن ہے کس کا جو ہر لالہ یاں سے
جگر خوں دل افگار پیدا ہوا ہے
اڑائے ہیں لخت جگر آہ نے جب
ہوا میں بھی گل زار پیدا ہوا ہے
میں کیوں کر نہ رکھوں عزیز اپنے دل کو
کہیں دل سا بھی یار پیدا ہوا ہے
کہے تھی یہ طفلی میں دیکھ اس کو دایہ
یہ لڑکا طرح دار پیدا ہوا ہے
میں آیا ہوں مدت میں کوئی اس سے کہہ دو
تمہارا گنہ گار پیدا ہوا ہے
یہ دل مجھ سے لڑتا ہے تیری طرف سے
کہاں کا طرف دار پیدا ہوا ہے
میاں مصحفیؔ بیچتے ہو جو دل کو
تو لاؤ خریدار پیدا ہوا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |