ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے

ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316124ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہےغلام علی ہمدانی مصحفی

ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے
پھر اس دل کو آزار پیدا ہوا ہے

سدا پان کھا کھا کے نکلے ہے باہر
زمانے میں خوں خوار پیدا ہوا ہے

یہ مدفن ہے کس کا جو ہر لالہ یاں سے
جگر خوں دل افگار پیدا ہوا ہے

اڑائے ہیں لخت جگر آہ نے جب
ہوا میں بھی گل زار پیدا ہوا ہے

میں کیوں کر نہ رکھوں عزیز اپنے دل کو
کہیں دل سا بھی یار پیدا ہوا ہے

کہے تھی یہ طفلی میں دیکھ اس کو دایہ
یہ لڑکا طرح دار پیدا ہوا ہے

میں آیا ہوں مدت میں کوئی اس سے کہہ دو
تمہارا گنہ گار پیدا ہوا ہے

یہ دل مجھ سے لڑتا ہے تیری طرف سے
کہاں کا طرف دار پیدا ہوا ہے

میاں مصحفیؔ بیچتے ہو جو دل کو
تو لاؤ خریدار پیدا ہوا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.