تربت پہ وہ جو آئے تو عالم نیا ہوا
تربت پہ وہ جو آئے تو عالم نیا ہوا
پھولوں میں جان پڑ گئی سبزہ ہرا ہوا
دیکھا گیا نہ اشکوں کا دریا بڑھا ہوا
پانی برس رہا تھا کہ قاصد ہوا ہوا
شامت ہے کس کی کون یہ پوچھے کہ کیا ہوا
صفدرؔ کو جا رہا ہے کوئی کوستا ہوا
آئے نکالنے وہ مرے دل کی حسرتیں
آئے اجاڑنے کو مرا گھر بسا ہوا
سنتا ہوں بے نقاب وہ آج آئے بام پر
کیا جانے حشر دیکھنے والوں کا کیا ہوا
کیا کیا بتاؤں بگڑے ہوئے تیوروں میں ہے
غصے میں بھی ہے پیار کا نقشہ کھچا ہوا
ہے اور رنگ و بو گل عارض سے آپ کے
دو پھولوں سے ہے گلشن عالم بسا ہوا
واعظ کو کیا ہوا ہے کہ توبہ کے بعد بھی
بیٹھا ہے خم کی طرح جو ہم سے بھرا ہوا
آ آ کے جا چکے کئی موسم بہار کے
اب تک اسیر دام نہ کوئی رہا ہوا
حصہ میں آ گیا وہی سیماب و برق کے
جو اضطراب تھا مرے دل سے بچا ہوا
پوچھا کسی نے حال جو صفدرؔ کا یوں کہا
زندہ تھا رات صبح کو کیا جانے کیا ہوا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |