ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ

ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
by میر تقی میر
314965ترجیع بند در مدح حضرت علیؓمیر تقی میر

قابل سجدہ ہے علی کا در
باب تعظیم ہے علی کا گھر
ہے علی ہی کا نام موجودات
ہے علی افتخار نوع بشر
فرش رہ عرش ہو نہیں سکتا
منزلت ہے علی کی بالاتر
منبع لطف و مظہر احساں
مصدر صدہزار فضل و ہنر
تھا پرآشوب جن کے شور سے دہر
کردیے خاکوں میں انھوں کے سر
قدرت اس کی خدا کی قدرت ہے
زور اچنبھا عجیب زورآور
اعتقاد اپنے کو چھپایا ہے
یہ جو کہتے ہیں پاس ظاہر کر
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ہے علی جملہ عزت و اعزاز
جان بھی اپنی ہے علی کی نیاز
غم شریک محمدؐ عربی
حرمت کعبہ آبروے حجاز
خاک دروازۂ علی رہیے
ہوویں یاور جو طالع ناساز
رو علی کی طرف ہی رکھ اس میں
در فردوس منھ پہ ہوگا باز
ہوسکے تو علی پرستی کر
تو ہو اسلامیوں میں تو ممتاز
ہے علی وہ کہ چرخ و ماہ و مہر
اس کی قدرت پہ سب کریں ہیں ناز
محو یاد علی ہیں جو ان کو
نے سر سجدہ نے دماغ نماز
ہیں علی سے علی طلب شب و روز
دوستی کشتگان قلب گداز
قبلہ کعبہ خدا رسول علی
گفتگو شوق کی بہت ہے دراز
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

ہے علی جانشیں پیمبرؐ کا
زیب مسجد ہے حسن منبر کا
زور بازو سے اس کے کیا کہیے
ہے زباں زد فسانہ خیبر کا
کر گیا گم بڑوں بڑوں کے حواس
چیرنا کودکی میں اژدر کا
جذب خورشید کس طرح سے کیا
وقت کم تھا نماز دیگر کا
سرکشان جہاں نے جھاڑے کان
سن کے احوال عمرو و عنتر کا
تیغ اس کی تھی برق ابر بہار
کٹ گیا جس سے رنگ اکثر کا
بارش ابر لطف بن اس کے
رفع کیا ہو غبار دل پر کا
کیا ہمارا شعور جو سمجھیں
مرتبہ اس سبھوں سے برتر کا
عقل کل پر بھی کرنا مشکل ہے
فرق ظاہر سے ایسے مظہر کا
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

ذات پاک اس کی ہے خدا کی ذات
جمع واجب کے اس میں سب ہیں صفات
علم و قدرت نہ بابت مذکور
دم زدن یہ نہ جاے حلم و ثبات
وہ نہ ہوتا سبب تو پھر کیا تھا
کیسے ہم تم کہاں کے موجودات
نہ تو دس عقل و نہ فلک ہوتے
نہ ستارے نمود کرتے سات
حال روشن نہ روز کا ہوتا
رہتی تاریکی عدم سے رات
اس کے مقدم سے نور ہے ورنہ
سوجھتا کس کو ہاتھ سے پھر ہات
وہ مقوم سبھوں کا وہ سب کچھ
یہی کہنے کی ایک ہے گی بات
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

ہے مسبب کہیں کہیں ہے سبب
ہے وہی لطف بے نہایت اب
ہے علی قابل پرستیدن
ہے علی مظہر ہزار عجب
عشق ہے ہم جو لیتے ہیں یوں نام
ورنہ سجدہ بھی یاں ہے ترک ادب
دم الطاف سبز روے زمیں
جگر چرخ چاک وقت غضب
داب یکبارگی لیے دشمن
دب کیا تونے جس گھڑی مرکب
تو بنا پاے خاک میداں پر
استخوان مزار کا مطلب
بارہا اے سوار شائستہ
ابلق چرخ نکلا تجھ سے دب
ہے تو بندہ تو اے مرے معبود
پر خدا کے سے ہیں ترے سب ڈھب
ہے تفنن کے طور پر یہ شعر
آشنا اپنے لب سے روز و شب
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

ہے علی حامی و مقوم دیں
ہے علی پیشواے اہل یقیں
ہے علی برگزیدۂ عالم
ہے علی اشرف زمان و زمیں
اس کی ہمت سے اس گلستاں میں
جیسے شبنم پڑے ہیں در ثمیں
اس کی جرأت سے قشعریرہ ہے
ان کو جو ہیں گے شیر بیشۂ کیں
خوبی اس کی کہاں تلک کہیے
خوب جانے جسے رسول امیں
اللہ اللہ تیری عزت و قدر
مجلس انبیا کا صدر نشیں
جیتے جیتے ہمارے قلب پر اب
نام اس کا ہے جیسے نقش نگیں
کبریا اس کی ہے وراے قیاس
وہم اپنا گیا کہیں سے کہیں
مانو یہ بات اس کی قدرت سے
نہیں بالقوۃ آدمی کا نہیں
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

سجدہ کرنے کے ہے علی قابل
قبلہ اپنا ہے اس طرف مائل
مرگ ہے مصلحت سے دشمن کو
بے ولا اس کے زیست کیا حاصل
درس میں تیرے اے شہ علام
پیر عقل ایک کودک جاہل
تیری ہمت قبول یہ نہ کرے
کہ مکرر ہلے لب سائل
اصل مطلب کو دوستی تیری
راہ مطلوب کو ہے یہ واصل
دست بخشش سحاب بارندہ
کف ہمت محیط بے ساحل
سیر کر مجمع کمال تجھے
دیکھ کر تیری قدرت کامل
طفل و برنا و پیر سارے مقر
عقل و ادراک و فہم سب قائل
یہ عقیدہ نہیں ہے اپنا ہی
کہتے ہیں سارے بالغ و عاقل
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

ہے علی سایہ گستر دوجہاں
دیوے خورشید حشر سے وہ اماں
صورت ظاہر علی پہ نہ جا
ہے علی خلوتی راز نہاں
وہ علی کی ہے ذات پاک جسے
جپتے رہتے ہیں اہل عالم جاں
کیا کریمی کی ہے صفت اللہ
نہیں ہے یہ نہیں یہی ہے یاں
شان ارفع ہے اپنے صاحب کی
کام کرتے نہیں قیاس و گماں
ہے جہاں رتبۂ وجوب اس کا
عقل کا درک وھاں ہے کیا امکاں
خوگر اس نام لینے سے جو نہیں
حیف صد حیف وہ دہان و زباں
دونوں یکتا ہیں ذوالفقار و علی
ایسی شمشیر ہے نہ ایسا جواں
سب ہیں حیران منزلت اس کے
قدر اس کی کہاں سپہر کہاں
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

ہے علی مدعا علی مقصود
وہی مشہود ہے وہی موجود
ہے علی وہ کہ سارے صاحب دل
لیتے نام اس کا بھیجتے ہیں درود
کیا زمیں کیا سپہر کیا مہ و مہر
کی علی کے لیے سبھوں نے نمود
جمع رکھ دل علی سبب ہوگا
کیا ہے اسباب اگر ہوئے مفقود
بندگی کے مقام ہیں معلوم
ہے یہ صاحب ہمارا تو معبود
مصطفےٰ مرتضےٰ خدا ہے ایک
لیک آگاہ راز ہیں معدود
جھک ہی جاتے ہیں سر سن اس کا نام
یعنی سب اس کو جانے ہیں مسجود
حشر ہوگا علی کے ساتھ اپنا
کیا ہے واں کا ہمیں غم بہبود
عندیہ اپنا اپنا ہے اے شیخ
گوش کر اس کو تو اچھل یا کود
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

گاہ بے گاہ کر علی خوانی
ہے علی دانی ہی خدا دانی
مہر کا اس کی رہ سرآشفتہ
ہے ولاے علی مسلمانی
فرش راہ علی کر آنکھوں کو
یوں بچھا تو بساط ایمانی
مور بے زور ہو علی کا تو
کہ جہاں میں کرے سلیمانی
چاہ میں اس کی آپ کو گم کر
تا کہیں تجھ کو ماہ کنعانی
ہے وہی مہر چرخ عرفاں کا
ہے وہی شاہ ظل سبحانی
قامت آراے کبریا حق کا
چہرہ پرداز نور یزدانی
ہاتھ اس کا وہی خدا کا ہاتھ
بات اس کی کلام ربانی
شوق مفرط سے ہے یہ طرز سخن
گو برا مانے کوئی مروانی
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

ہے علی یاں کا مالک و مختار
آگہ کار واقف اسرار
ہے علی آفتاب سا روشن
کچھ چھپا ہو تو کیجیے اظہار
ہے علی بہترین خلق خدا
ہے علی خویش سید ابرار
کون اس کا مقر جود نہیں
اس کی جرأت کا کس کو ہے انکار
یہ شرف کس میں جمع ہوتے ہیں
اشرف و حر و سید و سردار
عہد کا فخر وقت کا سلطاں
خوبی بزم و گرمی مضمار
تیغ برکف اگر نمود کرے
وہی قہار ہے وہی جبار
حکم کے مرتبے میں ہو تو وہی
پردہ پوش و غفور ہے ستار
عشق پیشوں کو اس کے کیا وسواس
کہتے ہیں اور پھر کہیں سو بار
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا

ہے علی وہ بلندقدر امیر
دے دے ڈالے ہیں جس نے تاج و سریر
اس کی یکتائی میں تردد کیا
جس کا نکلا نہیں عدم سے نظیر
خاک در ہو شہ ولایت کا
شاہیاں لے گئے ہیں یاں سے فقیر
یوں ہے درریز دست جود اس کا
جیسے برسے ہے کوئی ابر مطیر
صاحب ایسا ہی ہو تو صاحب ہے
گنہ آمرز اور عذر پذیر
ہم سے بندوں کی ورنہ کیونکے نبھے
دم بہ دم جن سے ہوتی ہے تقصیر
کچھ محبوں کا معتقد مت پوچھ
ہے علی ہی ہوالعلی کبیر
شان سے کہتے ہیں محیط کل
قدر سے قادر و خداے قدیر
تو موالی علی پرست نصیر
چاہے سو ہم کو کہہ لے اب اے میرؔ
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.