ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال
ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال
گر مار ڈالنا ہے تو یک بار مار ڈال
عاشق جو تیری زلف کا ہو اس کو تو صنم
لے جا کے تیرہ شب پس دیوار مار ڈال
کبک دری کے لاکھ قفس ہوں جہاں دھرے
دکھلا کے ان کو شوخی رفتار مار ڈال
کچھ ہم نے تیرے ہاتھ تو پکڑے نہیں میاں
گر جانتا ہے ہم کو گنہ گار مار ڈال
صیاد تجھ کو کس نے کہا تھا کہ فصل گل
مجھ کو قفس میں کر کے گرفتار مار ڈال
جو جاں بہ لب ہو حسرت دیدار میں تری
دکھلا کے اس کو جلوۂ رخسار مار ڈال
سودائیان عشق کا جھگڑا چکا کہیں
لے جا کے ان کو برسر بازار مار ڈال
تیغ و کمند مانگ کر ابرو و زلف سے
عاشق بہت ہوئے ہیں جفا کار مار ڈال
گر یہ بھی ہو سکے نہ تو کہتا ہے مصحفیؔ
دو چار کر لے قید میں دو چار مار ڈال
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |