تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے

تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
by اکبر الہ آبادی

تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے

نہ کیوں کر بوئے خوں نامے سے آئے
اسی جلاد کا لکھا ہوا ہے

چلے دنیا سے جس کی یاد میں ہم
غضب ہے وہ ہمیں بھولا ہوا ہے

کہوں کیا حال اگلی عشرتوں کا
وہ تھا اک خواب جو بھولا ہوا ہے

جفا ہو یا وفا ہم سب میں خوش ہیں
کریں کیا اب تو دل اٹکا ہوا ہے

ہوئی ہے عشق ہی سے حسن کی قدر
ہمیں سے آپ کا شہرا ہوا ہے

بتوں پر رہتی ہے مائل ہمیشہ
طبیعت کو خدایا کیا ہوا ہے

پریشاں رہتے ہو دن رات اکبرؔ
یہ کس کی زلف کا سودا ہوا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse