تری طرف سے دل اے جان جاں اٹھا نہ سکے
تری طرف سے دل اے جان جاں اٹھا نہ سکے
بہت ضعیف تھے بار گراں اٹھا نہ سکے
ہزار بار بہار آئی لیکن اے صیاد
نگاہ ہم طرف بوستاں اٹھا نہ سکے
اسیر زلف جو مرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں
ذرا بھی صدمۂ قید گراں اٹھا نہ سکے
سنیں جو یار کی باتیں غش آ گیا ہم کو
یہ ناتواں تھے کہ لطف بیاں اٹھا نہ سکے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |