ترے جلووں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی
ترے جلووں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی
زبان بے نگہ رکھ دی نگاہ بے زباں رکھ دی
مٹی جاتی تھی بلبل جلوۂ گل ہائے رنگیں پر
چھپا کر کس نے ان پردوں میں برق آشیاں رکھ دی
نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں
ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی
قفس کی یاد میں یہ اضطراب دل معاذ اللہ
کہ میں نے توڑ کر ایک ایک شاخ آشیاں رکھ دی
کرشمے حسن کے پنہاں تھے شاید رقص بسمل میں
بہت کچھ سوچ کر ظالم نے تیغ خوں فشاں رکھ دی
الٰہی کیا کیا تو نے کہ عالم میں تلاطم ہے
غضب کی ایک مشت خاک زیر آسماں رکھ دی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |