تسنگ نامہ

تسنگ نامہ
by میر تقی میر
314935تسنگ نامہمیر تقی میر

پاؤ توفیق ٹک تو سر کو دھنو
یہ بھی اک سانحہ ہے میرؔ سنو
ہم کو درپیش تب سفر آیا
جب کہ برسات سر ہی پر آیا
ابر ہونے لگے سپید و سیاہ
پانی رستوں میں کیچ ساری راہ
بیچ میں ہوتے کچھ اگر اسباب
منھ اٹھانے کی جی میں ہوتی تاب
سو تو کمل نہ پٹو نے لوئی
سایہ گستر نہ ابر بن کوئی
ابر ہی بیکسی پہ روتا تھا
ابر ہی سر کا سایہ ہوتا تھا
کیچ پانی میں کپڑے خوار ہوئے
ووہیں گاڑی میں جا سوار ہوئے
رہروی کا کیا جو ہم نے میل
بھینس چہلے کے تھے بہل کے بیل
آسماں آب سب زمیں سب کیچ
خاک ہے ایسی زندگی کے بیچ
شب کہ دریا پہ ہوکے راہ پڑی
پانی کے سطح پر نگاہ پڑی
لجے لطمے کا کیا کہوں میں اوج
باتیں کرتی ہے آسماں سے موج
دامن ابر پاٹ دریا کا
دے گرہ توکہے کہ باندھا تھا
ہوش جاتا تھا دیکھ جوش آب
گوش کرتا تھا کر خروش آب
آب تہ دار اور تیرہ بہت
لہر اٹھتی جو تھی سو خیرہ بہت
پانی پانی تھا شور سے طوفان
دیکھ دریا کو سوکھتے تھے جان
ہمرہ موج سیکڑوں گرداب
ساتھ تھی صد تری کے چشم حباب
ناؤ میں پاؤں ہم نے بارے رکھا
خوف کو جان کے کنارے رکھا
جزر و مد سب حواس کھوتا تھا
خضر کا رنگ سبز ہوتا تھا
جب کہ کشتی رواں ہوئی واں سے
جسم گویا کہ تھا نہ تھی جاں سے
موجہ اٹھنے لگا جو طوفاں زا
لجہ آیا نظر سو عماں زا
کیا کہیں ڈوب ہی چلے تھے ہم
ناخدائی خدا نے کی اس دم
بلی لگتی نہ تھی نہ کچھ تھی تھاہ
عقل گم کردہ لوگ تھے ہمراہ
ریلا پانی کا جب کہ آتا تھا
خوف سے جی بھی ڈوبا جاتا تھا
خطر غرق سے تھی طاقت طاق
بے خودی سے ہوا تھا استغراق
بہتا پھرتا تھا خضر کشتی پاس
غوطے کھاتے تھے حضرت الیاس
بدبلا سے تھے ہم کنار ہوئے
تھا خدا ہی تو پلے پار ہوئے
کسو درویش کا تھا یمن قدم
جا کے پہنچے جو اس کنارے ہم
ورنہ اعمال نے ڈبویا تھا
گوہر جاں سے ہاتھ دھویا تھا
اس کنارے کا جو اثر پایا
ہم تلاطم کشوں میں جی آیا
اس طرف اترے آب کے جاکر
میرؔ اور پیر صاحب و چاکر
شکر لب پر دلوں سے محو گلہ
کس و ناکس سبھوں سے خضر ملا
پار کا گنج تھا جو شاہدرہ
سب نے رہنا وہیں کا جی میں دھرا
فاصلہ ایک کوس کا تھا بیچ
راہ یاں سے تھی واں تلک سب کیچ
تھے بہت بیچ میں نشیب و فراز
پہنچے واں شام کھینچ رنج دراز
سو نہ جاگہ تھی نہ مکان مبیت
چار دوکانیں ایک پھوٹی مسیت
جاکے حیراں ہوئے کدھر جاویں
سر گھسیڑیں جو ٹک جگہ پاویں
تگ و دو ہر طرف لگے کرنے
تس پہ پڑتے تھے مینھ کے بھرنے
کوئی میداں میں کوئی چھپر میں
کوئی در میں کوئی کسو گھر میں
گھر ملا صاحبوں کو ایسا تنگ
جس سے بیت الخلا کو آوے ننگ
بیٹھنے دیں نہ جب کہ صاحب کو
کون پوچھے نفر مصاحب کو
ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے سرا پائی
ویسے گھر چھوٹے ویسی جا پائی
رہنا بھٹیاری کے غنیمت جان
جو کہا ان نے ہم گئے سب مان
کچھ پکانے کا جب سوال کیا
میں نے اظہار اپنا حال کیا
یاں جو لائے ہیں مجھ کو اپنے ساتھ
زندگانی مری ہے ان کے ہاتھ
پہنچے ہے ان کے روبرو سے طعام
صبح کا صبح مجھ کو شام کا شام
اور پکوایئے تو زائد ہو
خامی سے اپنے اور عائد ہو
جو کچھ آیا سو کھا لیا میں نے
کچھ رہا سو اٹھا دیا میں نے
سن کے اک دل سے کھینچی ان نے آہ
اور بولی کہ واہ صاحب واہ
ہم تو جانا تھا آدمی ہو بڑے
چار پانچ آدمی ہیں پاس کھڑے
کچھ یہ کھاویں گے کچھ کھلاویں گے
ہم کچھ ان کے سبب سے پاویں گے
سو تو نکلے ہو کورے بالم تم
ہو گدا جیسے شاہ عالم تم
کھانے پینے کی کچھ نہیں ہے بات
دیکھیے کس طرح سے گذرے رات
صدقے ہیں ایسے بھی اتارے کے
سوگئے بخت گھر ہمارے کے
میں کہا مہترانی جی کچھ لو
مجھ سے آزردہ دل نہ اتنی ہو
بعضے کھاتے ہیں کچھ کھلاتے ہیں
بعضے مجھ سے بھی آتے جاتے ہیں
بارے جوں توں ہوئی وہ رات تمام
صبح کو صاحبوں کا ٹھہرا مقام
یہ بھی دن شب ہوا سحر تھا کوچ
غازی آباد کو گئے سب پوچ
راہ طے کر سرا میں جا اترے
کچھ ستم دیدہ پاس آ اترے
صاحب اترے حویلی میں آکر
باغ میں اس کے سب نفر چاکر
بارور تھے درخت و سایہ بھی
پھل ولیکن کنھوں نے پایا بھی
اس بھی منزل میں ایک روز رہے
گذرے جس طور کوئی کس سے کہے
لوگ جس دم سوار ہونے لگے
اور اسباب بار ہونے لگے
سوہنی اس روا روی میں گئی
لوگ تھے مضطرب جگہ تھی نئی
وحشت اس کو زبس کہ طاری ہوئی
سر پٹک کر کسو طرف کو موئی
ایدھر اودھر تلاش کر دیکھا
گمشدہ کو نہ بھر نظر دیکھا
ساری بستی میں جست و جو کو گیا
دیر تک یہ خیال سب کو رہا
جن کی آتی ہے ایسے جاتے ہیں
کہ نہ پھر کھوج ان کا پاتے ہیں
مرگ تھی اس کی اس جگہ تقدیر
بلی تھی یاکہ گربۂ تصویر
رنگ جیسے کہ وقت گرگ و میش
یعنی سرخی تھی کم سیاہی بیش
جن سے مالوف تھی وہیں رہتی
ان سے کچھ کچھ نگاہوں میں کہتی
کیا نفاست مزاج کی کہیے
ستھری اتنی کہ دیکھ ہی رہیے
خال جوں پھول گل کترتے ہیں
یاکہ نقشوں میں رنگ بھرتے ہیں
چوہے چڑیا پہ ان نے کب کی نظر
حج کا کرنا نہ فرض تھا اس پر
موہنی بھی تو تھی بہن اس کی
نسبت اس کی تھی وہ بہت گھسکی
پاوے جو کچھ سو مار کھاوے یہ
ایک کیا چار چار کھاوے یہ
جانور مارنا تو ہے یکسو
تیز پنجہ کیا نہ ان نے کبھو
یہ نزاکت اسی کو بن آوے
موش دشتی کو دیکھ ڈر جاوے
ان نے مارے ہیں ایسے کتنے ڈھونس
گھونس دیکھی تو ہووے کوئی گھونس
یہ چھچھوندر کے بولتے بھاگے
وہ پڑی سوتی بھی ہو تو جاگے
چھپکلی سے یہ پھیر منھ کو لے
وہ جفاکار جیفہ پر جی دے
یہ پری سی تھی جو خرام کرے
وہ جو اچھلے تو دھوم دھام کرے
کبک اس کی خرام کے عاشق
جانور اس کے نام کے عاشق
غرض افسوس کی جگہ بلی
اب کہاں گوکہ چھانیے دلی
ایسی بیگم مزاج بلی کھو
بیگم آباد ہم گئے یارو
واں سے میرٹھ سبھوں نے کی منزل
کیچ پانی اگرچہ تھا حائل
گرتے پڑتے پہنچ گئے سارے
ہم جفاے سپہر کے مارے
واں سے لاوڑ تسنگ پھر واں سے
جاکے واں تنگ آگئے جاں سے
اک گڑھی باش و بود کو پائی
کچھ نہ کھانے کو جس میں نے کھائی
پھوٹی پھاٹی سی چاردیواری
اور میدان تھی گڑھی ساری
پھر نہ میدان بھی برابر تھا
ہر قدم ایک غار و چقر تھا
کھنڈر سے اس میں تین چار مکان
جن کا گرنے پہ سخت ہے میلان
وہ گڑھے سارے کھتے ناج کے تھے
برسوں سے تھے پڑے نہ آج کے تھے
خاک مٹی سے ان گڑھوں کو بھرا
بنگلا اک لا کے اس کے بیچ دھرا
خشتی پائے اگر نہ بنواتے
باؤ میں اس سمیت اڑ جاتے
باؤ جنگل کی تند کچھ نہ رکاؤ
مینھ میں چل پڑے تو کانپے جاؤ
اک گڑھی جس کی سیکڑوں راہیں
واں ٹھہرنے کو چاہیے باہیں
وہ رہے جو رکھے بہت سے لوگ
یا کوئی جوگی جو کرے واں جوگ
ورنہ مشکل بہت ثبات قدم
دل میں اک ہول ہی رہے ہر دم
باؤ سی دن کو سائیں سائیں کرے
رات ہووے تو بھائیں بھائیں کرے
گر شکستہ ہوئی کہیں دیوار
بے زری سے بنانا ہے دشوار
ہفتہ ہفتہ تلک پڑی ہے خراب
پردہ کاہے کا پھر ہے رفع حجاب
کارپردازوں کو تقید ہے
شور ہے گالی ہے تشدد ہے
وے بچارے بہانے کرتے ہیں
رات دن لوگ چوکی بھرتے ہیں
کہتے ان سے تو یہ ملے ہے جواب
کس کے گھر سے بناویں لاکے شتاب
ہم کو کھانے ہی کا تردد ہے
صبح بقال کا تشدد ہے
بنیا منھ کو چھپائے جاتا ہے
روٹی کا فکر کھائے جاتا ہے
حال کب پوچھنے کے ہے قابل
ہم فقیروں کے رنگ ہیں سائل
سوچیں ہیں جب تو جھول جاتے ہیں
بات کہتے ہیں بھول جاتے ہیں
تم کو دیوار پاکھے ہیں گے یاد
ہم کو کرتا نہیں خدا آزاد
کس کو موسیں کہاں سے کچھ لاویں
دال آٹا جو تم کو پہنچاویں
تم کہو دال ماش کی ہے زبوں
یاں بہم پہنچے ہے جگر ہو خوں
تم کہو آٹا کسکسا کھایا
یاں کلیجہ چھنا تو ہاتھ آیا
اور دوچار روز یہ بھی ہے
ایک غم سینہ سوز یہ بھی ہے
فصل ہونے ابھی نہیں پائی
پیشگی سب سے قرض لے کھائی
جس سے جھوٹے ہوئے ہیں ہم دس بار
چوٹٹا وہ کہے ہے ساہوکار
ماش کی دال کا نہ کریے گلہ
گوشت یاں ہے کبھو کسو کو ملا
چاہتے ہو تو مول لو اک بز
ورنہ بیٹھے رہو بنے جزبز
بکری لینے کو پیسے ہیں کس پاس
کھاؤ دال اور پادو بے وسواس
جی اگر چاہے کوئی ترکاری
گول کدو ملے بصد خواری
بھنڈی بیگن کے ناؤں ڈھینڈس تھا
اروی توری بغیر جی بس تھا
جز کدو پاوے کلو مدھو کیا
یعنی کچھ اور واں تھا کدو کیا
دارو گولی کے کچھ نہ تھے اسباب
ماش کی دال کھاتے تھے احباب
جو گڑھی میں نہ چھوٹتے یوں گوز
بجتی رہتی تپک کہاں سے روز
گھاس ہی گھاس اس مکاں میں تمام
تس میں لساع جانور اقسام
جیسے زنبور زرد ایسے ڈانس
کاٹ کھاویں تو اچھلو دو دو بانس
پشہ و کیک اور کھٹی تھی
جن کے کاٹے اچھلتی پتی تھی
ہاتھ پنڈوں پہ سب چلے جاتے
شب گزوں سے بدن جلے جاتے
ان کے کاٹے بدن پہ دانہ ہے
مرچ جدوار پھر لگانا ہے
ایک دو دن جلا فراغ ہوا
اس کی جاگہ سیاہ داغ ہوا
نہ کھجاتے کھجاتے سارے گھسے
چٹھے چٹھے ہوئے جو دانے پسے
دن کو وہ صورت طعام ہوئی
رات کو نیند یوں حرام ہوئی
کتوں کے چاروں اور رستے تھے
کتے ہی واں کہے تو بستے تھے
دو کہیں ہیں کھڑے کہیں بیٹھے
چار لوگوں کے گھر میں ہیں پیٹھے
ایک نے پھوڑے باسن ایکو نے
کھود مارے گھروں کے سب کونے
کوئی گھورا کرے کوئی بھونکے
خفتہ خفتہ بھی شور سے چونکے
سانجھ ہوتے قیامت آئی ایک
شور عف عف سے آفت آئی ایک
گلہ گلہ گھروں میں پھرنے لگے
روٹی ٹکڑے کی بو پہ گرنے لگے
ایک نے آکے دیگچہ چاٹا
ایک آیا سو کھا گیا آٹا
ایک نے دوڑ کر دیا پھوڑا
پھر پیا آکے تیل اگر چھوڑا
گھورنے اک لگا اندھیرا کر
ایک نے اور ایک پھیرا کر
گھر میں چھینکے اگر تھے توڑ دیے
ہانڈی باسن گرا کے پھوڑ دیے
لوگ سوتے ہیں کتے پھرتے ہیں
لڑتے ہیں دوڑتے ہیں گرتے ہیں
جب کہ ہڈی پہ چار چار لڑیں
گوشت پر بھیڑیے سے دوڑ پڑیں
ایک کے پیچھے ایک روز و شب
لینڈھے سے واں نہ بندھ رہے تھے کب
کتے ہی واں دوچار رہتے ہیں
دو گئے بھی تو چار رہتے ہیں
جاگتے ہو تو دوبدو کتے
سو کر اٹھو تو روبرو کتے
سر پہ دربان کے بلا ہی رہے
کتا ایک آدھ گھر میں جا ہی رہے
منھ میں کف دور دور کرنے سے
حال بے حال شور کرنے سے
توکہے سن کے وہ گلا پھاٹا
باولے کتے نے اسے کاٹا
کتوں کی کیا سماجتوں کو کہیں
چچڑی سے رات دن لگے ہی رہیں
باہر اندر کہاں کہاں کتے
بام و در چھت جہاں تہاں کتے
جھڑجھڑاوے ہے کان کو کوئی
رووے ہے اپنی جان کو کوئی
یک طرف ہے چپڑچپڑ کی صدا
یعنی کتا ہے چکی چاٹ رہا
ایک چھنے کو منھ میں لے آیا
ایک چولھے کو کھودتا پایا
ایک کے منھ میں ہانڈی ہے کالی
ایک نے چلنی چاٹ ہے ڈالی
تیل کی کپی ایک لے بھاگا
ایک چکنے گھڑے سے جا لاگا
کتے یارو کہ جان کا تھا روگ
جاں بلب ہوں نہ کس طرح سے لوگ
آدمی کی معاش ہو کیوں کر
کتوں میں بود و باش ہو کیوں کر
بستی دیکھی سو ایسی تھی آباد
کہ بیابان سخت سے دے یاد
چار چھپر کہیں چماروں کے
سو بھی ٹوٹے گرے بچاروں کے
پھر چلو آگے تو نہیں ہے کچھ
ڈھنڈھ سا اور جو کہیں ہے کچھ
پھوٹی ٹوٹی کوئی حویلی ہے
سو بھی میدان میں اکیلی ہے
ایک دو مردے سے پڑے ہیں واں
زرد ہو ہوگئے ہیں بے لب ناں
لوگ ایسے مکان سب ایسے
ایسی جاگہ سے اچٹیں دل کیسے
اور جو چار گھر نظر آئے
ان کی خوبی کھلے وہیں جائے
وہ بھی کولی چمار تھے کوئی
فاقوں کے زیر بار تھے کوئی
صورتیں کالی سوکھے سوکھے سے
سارے کنگال اور بھوکھے سے
چار دانوں کے واسطے جی دیں
جان کھا جائیں کچھ نہ جب تک لیں
اس سے آگے بڑھے تو دھینور تھے
اجڑے پجڑے انھوں کے کچھ گھر تھے
اور آگے گئے تو تھا بازار
اس میں بنیوں کی تھیں دکانیں چار
ایک کے پاس دال کچھ آٹا
تس کو بھی مکھیوں نے تھا چاٹا
ایک کے سانواں اور تھوڑے چنے
چھبڑوں میں خاک دھول ایک کنے
جو تھا باقی رہا سو تھا کنگال
ناؤں کو کہتے تھے اسے بقال
اس کا عامل کے یاں اٹھا مایہ
ان نے جیسا کیا تھا سو پایا
ایک کنجڑے کے چار گٹھی پیاز
تس پہ اس کو ہزار فخر و ناز
کیا کہوں مرچ تھی نہ ادرک تھی
اس مچھندر میں کچھ بھی بھدرک تھی
ایک دوکان تھی پساری کی
ان نے ہم لوگوں سے بھی یاری کی
اس سے جاکر جو مانگیے ہلدی
زرد مٹی کو باندھ دے جلدی
دیکھ کر کچھ کہو تو وہ یہ کہے
بس تم اس بستی میں میاں جی رہے
یاں جو کچھ ہے چلن سو دیتا ہوں
میں بھی پیسے لگا کے لیتا ہوں
مانگو اس سے جو مرچ یا دھنیا
دیوے لچا وہی بتا دھنیا
ان میں دو دانے اور سب کنکر
دیے کاغذ میں ہاتھ لنباکر
لونگ چورا نفر سے منگوایا
لال مرچیں کٹی ہوئی لایا
اور اشیا یہیں سے کریے قیاس
آگے جاتا نہیں کہا مجھ پاس
اور دس بیس گھر گنواروں کے
اور دو چار فاقہ ماروں کے
پھوٹی مسجد خطیب تھا نہ اذاں
یہی خانہ خطیب کا تھا واں
نہ تھی قید صلوٰۃ و رسم صوم
اس پہ سید امام واں کے قوم
بندے سب جن کا تھا خدا نہ کوئی
اس طریقے سے آشنا نہ کوئی
راہ و رسم و طریق سب بے ڈھب
پہلے گالی تھی پیچھے حرف بہ لب
کوسوں بھاگا اگر ملا کوئی
صحبت ایسوں سے رکھے کیا کوئی
ایک تکیہ نہ جس میں فرش کاہ
حال درویش قابل صد آہ
ٹکڑے ٹکڑے کی احتیاج اس کو
مرض جوع لاعلاج اس کو
برسوں چلا کے ناامید ہوا
چپکی سادھی جگر میں چھید ہوا
آتے جاتے سے ان نے جو پایا
اسی پر رہ گیا وہی کھایا
گرد جو چار خاک کے سے ڈھیر
جن کو کہتے تھے لیٹے ہیں یاں شیر
اپنا تو اعتقاد تھا ہی کم
پر کبھو بلی بھی نہ دیکھی ہم
کچھ نہ دیکھا ہم ان بھی گوروں سے
کام نکلا سو اپنے زوروں سے
کی توجہ جو ٹک دروں کی اور
دل جگر پر مرے پڑا کچھ زور
جس سے چھاتی میں درد ہونے لگا
رنگ چہرے کا زرد ہونے لگا
پھر زمیں داروں میں نفاق ہوا
یہ عجب اور اتفاق ہوا
دونوں کا اک جدا ہی مطلب ہے
یہ کہے روز وہ کہے شب ہے
آس پاس اس گڑھی کے آئی جھیل
گم تھے برسات میں طریق و سبیل
ایدھر اودھر اتر کے پانی جاؤ
قہر ہے پھر جو ٹک بھی ہووے چڑھاؤ
اس سے واں کی ہوا بہت مرطوب
ہووے نزلہ زکام بے اسلوب
کتنے زوروں میں ہوتی ہے کھانسی
ایسی جیسے گلے میں دیں پھانسی
پھر وہ درجہ ہے جس میں ہووے دق
یہ کوئی نکلی ایک ثالث شق
پڑی آفت خطر تھا سکھوں کا
کیونکہ وہ ملک گھر تھا سکھوں کا
اس میں آجاتے تو قیامت تھی
مال و جاں غرض سب کی رخصت تھی
نہ کوئی دادرس نہ وقت داد
مفت ہی ہم گئے تھے سب برباد
کیا کڈھب چرخ کج نے پھینکا تھا
پر خدا کچھ ہمارا سیدھا تھا
جس نے قدرت نمائی کی اپنی
اس بلا سے رہائی کی اپنی
بس قلم ہے صریر تیری تند
شور سے تو پڑا جہاں میں دند
بدزبانی کا مجھ کو کب ہے دماغ
ایسی باتوں سے میں کیا ہے فراغ
ہوچکی صاحبوں کی فرمائش
چپ رہ اب ہے زمان آسائش


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.