تصور آپ کا ہے اور میں ہوں

تصور آپ کا ہے اور میں ہوں
by نظام رامپوری

تصور آپ کا ہے اور میں ہوں
یہی اب مشغلا ہے اور میں ہوں

مری ضد سے ملا پھر دشمنوں سے
بس اب وہ بے وفا ہے اور میں ہوں

وہ ہو اور میں ہوں اور کوئی نہ ہو غیر
یہی ہر دم دعا ہے اور میں ہوں

تصور میں ہیں پہروں ان سے باتیں
شکایت کا مزا ہے اور میں ہوں

تمہاری خو ہے رنجش ہر گھڑی کی
یہ جھگڑا روز کا ہے اور میں ہوں

الٰہی وصل ہے یا خواب ہے یہ
حصول مدعا ہے اور میں ہوں

ہزاروں غم تو دیکھے اس سے مل کر
وہی پھر حوصلا ہے اور میں ہوں

سہے کیا کیا ستم اور اب تلک بھی
تمنا ہے وفا ہے اور میں ہوں

گئے وہ تو جہاں جانا تھا ان کو
اب ان کا نقش پا ہے اور میں ہوں

ہر اک سے حال دل کہتا ہوں اپنا
یہ چرچا جا بہ جا ہے اور میں ہوں

دو عالم کی خوشی سے کچھ نہیں کام
فقط اک غم ترا ہے اور میں ہوں

وہ ہے اور عہد نامے ہیں عدو سے
نصیبوں کا لکھا ہے اور میں ہوں

غم دوری قیامت ہے کہ ہر دم
اجل کا سامنا ہے اور میں ہوں

خدا کی جنتیں ہیں اور ہے خلق
صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں

سحر ہوتے ہی جاتے ہی کسی کے
وہی آہ و بکا ہے اور میں ہوں

نظامؔ اس بت کے غم میں ہو تسلی
بس اک ذات خدا ہے اور میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse