تصویر مری ہے عکس ترا تو اور نہیں میں اور نہیں
تصویر مری ہے عکس ترا تو اور نہیں میں اور نہیں
کر غور تو اپنے دل میں ذرا تو اور نہیں میں اور نہیں
تسبیح نے جس دم فخر کیا دانوں میں وہیں ڈورے کو دکھا
زنار نے اس رشتے سے کہا تو اور نہیں میں اور نہیں
اس باغ میں تو اے برگ حنا ہنسنے پہ مرے زخموں کے نہ جا
رونے میں لہو خنداں ہوں کیا تو اور نہیں میں اور نہیں
ہر ایک جواہر بیش بہا چمکا تو یہ پتھر کہنے لگا
جو سنگ ترا وہ سنگ مرا تو اور نہیں میں اور نہیں
اے شادؔ مرا پتلا جو بنا مل آتش و خاک و آب و ہوا
ہر چار عناصر نے یہ کہا تو اور نہیں میں اور نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |